کبھی آپ نے سوچا کہ جب محفل میں بیٹھے کسی ایک شخص کو جماہی آتی ہے تو دوسرے بھی بیزاری سے جماہی لینے لگتے ہیں، اگر نہیں سوچا تو کوئی بات نہیں ماہرین نے اس عمل کی سائنسی تشریح کرنے کی کوشش کی ہے۔
لندن: کبھی آپ نے سوچا کہ جب محفل میں بیٹھے کسی ایک شخص کو جماہی آتی ہے تو دوسرے بھی بیزاری سے جماہی لینے لگتے ہیں، اگر نہیں سوچا تو کوئی بات نہیں ماہرین نے اس عمل کی سائنسی تشریح کرنے کی کوشش کی ہے۔
دماغی ماہرین کے مطابق جماہی لینے کا عمل ہمارے دماغ کے سرکٹ میں نقش ہے اور اسے سمجھ کر ہم کئی دماغی عارضوں کا علاج ڈھونڈ سکتے ہیں جن میں ٹوریٹ سینڈروم بھی شامل ہے۔
برطانیہ میں نوٹنگھم یونیورسٹی کے ماہرین نے کہا ہے کہ ’جماہی‘ لینے کا عمل غیرارادی طور پر دوسروں میں پھیلتا ہے اور اس عمل کو ایکوفینومنا کہتے ہیں۔ اس کے تحت ہم لوگوں کی حرکات اور الفاظ کی نقل کرتے اور انہیں دوہراتے ہیں۔ لیکن اس کا تعلق آٹزم اور مرگی سے بھی ہو سکتا ہے اور جماہی کے عمل کو سمجھ کر ہم ان امراض کے بہتر علاج کر سکتے ہیں۔
ماہرین نے اس کے لیے ایک سروے کیا جس میں 36 افراد شامل تھے۔ انہیں ایسی ویڈیو دکھائی گئیں جس میں لوگ جماہی لے رہے تھے۔ اب انہوں نے نوٹ کیا کہ ویڈیو دیکھ کر کس نے جماہی لی اور کس نے روکے رکھی۔ آخرکارمعلوم ہوا کہ دوسروں کی جماہی دیکھ کر اسے روکنے کی صلاحیت محدود ہوتی ہے اور اس وقت مزید مشکل ہو جاتی ہے جب لوگوں کو جماہی روکنے کا کہا جائے۔
حیرت انگیز طور پر جب دماغ میں برقی سرگرمی شامل کی گئی تو جماہی کا عمل بھی شروع ہوگیا اور اسے طبی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
نوٹنگھم میں کوگنیٹو سائیکوتھراپی کی ماہر جارجینا جیکسن کہتی ہیں کہ برقی تحریک سے ہم کسی شخص میں مسلسل جماہی کا عمل بڑھا سکتے ہیں اور اسی طرح اسے کم بھی کیا جاسکتا ہے، ایک مرض ٹوریٹس میں بھی برقی سرگرمی سے کمی کی جا سکتی ہے۔ اس مرض کے شکار افراد پر جھٹکے پڑتے ہیں اور ہاتھ پاؤں اکڑ جاتے ہیں۔
اس طرح جماہی کا عمل جاننے کے بعد خود ہم کئی امراض کا بہتر علاج کر سکیں گے لیکن یہ جان لیجیے کہ جماہی کا عمل ہمارے دماغ میں نقش ہے اور اعصابی سرکٹ کا حصہ بھی ہے۔